رافائل گروسی نے گزشتہ روز یعنی 3 جون کو ہونے والے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ایران کے پرامن ایٹمی توانائی کے پروگرام کے خلاف ایک بار پھر بے بنیاد دعوے پیش کیے ہیں جنہیں تمام ماہرین سیاست زدہ، غیرفنی اور غیرتعمیری قرار دے رہے ہیں۔
گروسی کے اس اقدام کو بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کروانے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی اے ای اے نے گزشتہ بار کی سیاسی کھیل کھیلنے سے عبرت حاصل نہیں کی ہے اور تمام شواہد اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ اس بار ایران کا جواب انتہائی سخت ہوگا۔
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد، اس ایجنسی کے رویے کا دار و مدار، اس میں فنی مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے، اس تنظیم کے موجودہ سیکریٹری جنرل کے سیاسی کھیل کے گرد گھوم رہا ہے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخیروں، سنٹری فیوج مشینوں کی تعداد اور ان کی پیداوار، بھاری پانی اور یورینیم پتھر کے کانسنٹریٹ کے بارے میں دقیق معلومات کے فقدان پر تو تفصیل سے گفتگو کی لیکن ایٹمی معاہدے کے تحت، ایران کے حقوق جس میں دوسروں کی بدعہدی کی صورت میں ایران کو معاہدے پر عملدرامد میں کمی کا حق حاصل ہے کا کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔
گروسی نے ایک بار پھر انہیں دعووں کو پھر سے دوہرایا ہے جسے ایجنسی اس سے قبل خود اسے حل شدہ مسئلہ قرار دے چکی تھی۔
یاد رہے کہ اس بار بھی ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ نے اپنے ان دعووں کے لئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رافائل گروسی کی یہ حرکت ایران میں درپیش صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے اور ایران کے ایٹمی مذاکرات کار ٹیم کو مرعوب یا پھر انہیں زیادہ رعایت دینے پر مجبور کرنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے تاہم ایران کا ردعمل ہمیشہ فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔
آپ کا تبصرہ